Urdu quotes have a unique way of capturing deep emotions and wisdom in just a few words. They often reflect the rich cultural heritage and poetic tradition of the language, resonating with people from all walks of life. These quotes can inspire, motivate, and provide comfort, making them an essential part of daily conversations and literature. Whether it’s about life, love, or resilience, Urdu quotes hold a special place in the hearts of millions. For more on the beauty of Urdu language and its influence, you can explore this article or learn about the impact of Urdu poetry here.
بسم اللہ الرحمن الرحیم، ایک مختصر جملہ، مگر اس کی فضیلت اور برکات ناقابل بیان ہیں۔ یہ ایک ایسا مقدس کلمہ ہے جسے مسلمان اپنی روزمرہ زندگی کے ہر کام کی ابتدا میں استعمال کرتے ہیں۔ اس جملے کے ذریعے اللہ کی رحمت اور حفاظت کو پکارا جاتا ہے، اور اس سے جڑے کئی حیرت انگیز واقعات ہیں جو ہمیں اس کی طاقت کا اندازہ دیتے ہیں۔
بسم اللہ اور روزمرہ کے معاملات
ایک واقعہ جو بہت مشہور ہے، وہ ایک غریب خاندان کا ہے جو روزانہ اپنے کھانے کی شروعات بسم اللہ سے کرتے تھے۔ ایک دن، ان کے گھر میں کچھ کھانے کو موجود نہ تھا۔ والد نے بچوں کو بھوک کی حالت میں بٹھایا اور کہا، “ہم بسم اللہ پڑھیں گے اور اللہ پر بھروسہ کریں گے۔” کچھ لمحوں بعد، کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور گھر کے باہر کھانے کا سامان رکھا ہوا تھا۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ بسم اللہ پڑھنے سے رزق میں برکت اور اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ جنگل میں سفر کرنے والے ایک شخص کا ہے۔ اچانک ایک شیر اس کے سامنے آ گیا۔ خوفزدہ ہونے کے بجائے، اس نے فوراً “بسم اللہ” پڑھا اور شیر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شیر نے اس پر حملہ کرنے کے بجائے، خاموشی سے پیچھے ہٹ کر جنگل میں واپس چلا گیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ بسم اللہ پڑھنے سے انسان اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے، چاہے حالات کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔
بسم اللہ اور کاروبار میں برکت
کاروباری دنیا میں بسم اللہ کے واقعات مشہور ہیں۔ ایک شخص جو کافی عرصے سے کاروباری نقصان کا سامنا کر رہا تھا، اسے کسی نے مشورہ دیا کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرے۔ اس نے اس پر عمل کیا، اور جلد ہی اس کے کاروبار میں ترقی ہونے لگی۔ بسم اللہ کی برکت سے کاروبار میں خوشحالی اور کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اللہ کا نام لینے سے مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔
بسم اللہ اور بچوں کی تربیت
بچوں کی تربیت میں بسم اللہ کی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے۔ ایک ماں کا واقعہ ہے جس کا بچہ بہت شرارتی تھا اور پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ ماں نے اسے ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی ہدایت دی۔ کچھ عرصے بعد، بچے کے رویے میں حیرت انگیز تبدیلی آئی، اور وہ ایک بہترین طالب علم بن گیا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ کی تربیت بچوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہے اور ان کے مستقبل کو بہتر بنا سکتی ہے۔
بسم اللہ اور صحت
بسم اللہ کا اثر صحت پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک مریض جو شدید بیماری میں مبتلا تھا اور ڈاکٹروں نے بھی امید چھوڑ دی تھی، اس کے والدین نے بسم اللہ پڑھ کر دعا شروع کی۔ چند دنوں میں، مریض کی حالت میں حیرت انگیز بہتری آ گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بسم اللہ کے پڑھنے سے نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی صحت میں بھی برکت ہوتی ہے۔
خلاصہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم ایک ایسا کلمہ ہے جو ہمیں ہر کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرنے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ جملہ نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی میں سکون اور تحفظ لاتا ہے بلکہ ہمارے ایمان کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ ان واقعات کے ذریعے ہمیں بسم اللہ کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے نام کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ بسم اللہ کی برکت سے ہماری زندگی میں خوشحالی، کامیابی، اور سکون آتا ہے۔
Heart-touching quotes about life often encapsulate profound truths in simple yet powerful words. These quotes have the ability to resonate deeply with our emotions, reminding us of the beauty, challenges, and fleeting nature of life. They inspire us to appreciate every moment, find strength in adversity, and spread love and kindness. Such quotes not only provide comfort but also offer wisdom that can guide us through life’s ups and downs, making us more resilient and empathetic individuals.
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر پہلو کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی ضابطے میں صفائی کا خصوصی مقام ہے۔ اسلام میں صفائی کی اہمیت کو اس قدر اجاگر کیا گیا ہے کہ اسے نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔
صفائی کی اہمیت
صفائی اور پاکیزگی کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“صفائی نصف ایمان ہے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے صفائی کو اپنا نا از حد ضروری ہے۔
قرآن مجید میں صفائی کی اہمیت
قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر صفائی اور پاکیزگی کا ذکر آیا ہے۔ کچھ اہم آیات درج ذیل ہیں:
1. “اور اللہ بھی پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
(سورہ البقرہ، 2:222) قرآن ڈاٹ کام
2. “اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔”
(سورہ المدثر، 74:4) قرآن ڈاٹ کام
3. “بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔”
(سورہ البقرہ، 2:222) قرآن ڈاٹ کام
صفائی کے فوائد
صفائی نہ صرف ایمان کی تکمیل کرتی ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی بے حد فائدہ مند ہے۔ چند اہم فوائد درج ذیل ہیں:
صحت کا تحفظ: صفائی ہمیں مختلف بیماریوں سے بچاتی ہے اور ہمیں صحتمند رکھتی ہے۔
ذہنی سکون: صفائی کا ماحول ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔
معاشرتی تعلقات: صفائی ہمیں دوسروں کے نزدیک رہنے اور معاشرتی تعلقات مضبوط کرنے میں مدد دیتی ہے۔
صفائی کے اصول
اسلام نے صفائی کے چند بنیادی اصول مقرر کیے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں اپنانے چاہیے:
وضو کرنا: نماز سے قبل وضو کرنا لازمی ہے جس سے جسمانی صفائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
لباس کی پاکیزگی: ہمارا لباس ہمیشہ صاف اور پاک ہونا چاہئے۔
ماحول کی صفائی: اپنے گھروں، گلیوں اور معاشرتی جگہوں کو صاف رکھنا ہمارا فرض ہے۔
صفائی کی تلقین
اسلام میں صفائی کی اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ یہ ہر مسلمان کی روز مرہ زندگی کا حصہ بننا چاہئے۔ اس کا مقصد نہ صرف ذاتی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی صفائی اور پاکیزگی کا فروغ ہے۔
مزید معلومات کے لئے وکیپیڈیا پر بھی صفائی کے بارے میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
اختتامیہ
صفائی نصف ایمان ہے، یہ محض ایک حدیث نہیں بلکہ ہماری زندگی کو خوبصورت اور بہتر بنانے کا پیغام ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم صفائی اور پاکیزگی کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائیں اور اپنے معاشرے کو بھی اس بارے میں آگاہ کریں۔ صفائی نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے گھروں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھیں تاکہ ہم ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
حضرت مالک بن دینارؒ کی توبہ کا واقعہ انتہائی سبق آموز ہے۔ آپ کا نام مالک بن دینارؒ تھا اور آپ کو صوفیانہ راستے پر چلنے والے اہم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے
حضرت مالک بن دینارؒ جوانی میں ایک باغی اور گناہگار انسان تھے۔ آپ کی زندگی شراب نوشی اور بدکرداری میں گزرتی تھی۔ مگر ایک واقعہ نے آپ کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔
ایک رات، آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ قیامت کا دن ہے اور لوگوں کا حساب ہو رہا ہے۔ آپ کو ایک درخت کی طرف لے جایا جاتا ہے جس کے نیچے ایک نہر بہ رہی ہے۔ نہر کے دوسری جانب ایک چھوٹی بچی کھڑی ہے جو آپ کو پکار رہی ہے۔ بچی کہتی ہے، “بابا! مجھے بچائیے۔” لیکن آپ نہر پار نہیں کر پاتے۔
اچانک، ایک بادل آتا ہے اور ایک نورانی صورت میں ایک فرشتہ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ بچی آپ کی وہی بیٹی ہے جو چند ماہ کی عمر میں فوت ہوگئی تھی۔ فرشتہ کہتا ہے کہ “یہ آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہے کہ آپ نہر پار نہیں کر سکتے۔”
یہ خواب آپ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا۔ حضرت مالک بن دینارؒ نے اسی وقت توبہ کی اور اپنی زندگی کو اللہ کے راستے پر لگا دیا۔ آپ نے اپنی بقیہ زندگی عبادت، ریاضت اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے میں گزار دی۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ کر لے اور اللہ کی طرف رجوع کرے، تو اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور اس کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔
علی ایک عام سا لڑکا تھا، جو شہر کے ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ اُس کے والد ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان چلاتے تھے، اور علی بھی اکثر والد کے ساتھ دکان پر جاتا تھا۔ علی کو کتابوں سے محبت تھی، خاص طور پر افسانوی کہانیاں اُسے بہت پسند تھیں۔ ایک شام، جب علی دکان پر بیٹھا تھا، اُس کی نظر ایک پرانی کتاب پر پڑی، جو ہمیشہ اُس کی نظر سے بچ کر رکھی جاتی تھی۔
کتاب کی جلد پر سونے کی مائل چمک تھی اور اس پر سنہری حروف میں لکھا تھا: “خوابوں کی دنیا”۔ علی نے کتاب کو ہلکا سا کھولا، اور اُس نے دیکھا کہ کتاب کی صفحات پر ایک خوبصورت اور عجیب و غریب دنیا کی تصاویر تھیں۔ اس میں رنگین جھیلیں، ہنستے ہوئے درخت، اور پرندے جو باتیں کر رہے تھے، سب کچھ بہت حیرت انگیز لگ رہا تھا۔
باب 2: خوابوں کی دنیا میں سفر
رات کے وقت، جب علی اپنے بستر پر لیٹا، اُس نے کتاب کو دوبارہ دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آج رات خوابوں کی دنیا میں جانا شاید ممکن ہو، اُس نے کتاب کو کھول لیا۔ جیسے ہی اُس نے صفحات کو پلٹا، اچانک ایک نرم روشنی نے اُسے گھیر لیا اور وہ ایک خوبصورت جنگل میں پہنچ گیا۔
علی نے دیکھا کہ یہاں کی ہر چیز جادوئی تھی۔ درخت باتیں کر رہے تھے، پھول مختلف رنگوں میں چمک رہے تھے، اور ایک خوبصورت جھیل وسط میں چمک رہی تھی۔ علی نے دل ہی دل میں سوچا کہ شاید یہ سب اُس کے خوابوں کا حصہ ہے، مگر جب اُس نے پانی میں جھانکا تو اُس نے اپنی حقیقت میں آنے کی تصدیق کر لی۔
باب 3: پہلی مہم
جنگل میں چلتے ہوئے، علی نے ایک پرانا کمرہ دیکھا جو مختلف اشیاء سے بھرا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی اُسے ایک بوڑھی عورت ملی، جو ایک بڑی کتاب پڑھ رہی تھی۔ عورت نے اُسے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ وہ خوابوں کی دنیا کی گائیڈ ہے۔
“یہاں تمہیں تین اہم کام انجام دینے ہیں،” بوڑھی عورت نے کہا، “پہلا، جھیل کے کنارے پر موجود پراسرار گیند کو تلاش کرنا ہے، دوسرا، جادوئی درخت کی حفاظت کرنی ہے، اور تیسرا، خوابوں کی دنیا کے راز کو کھولنا ہے۔”
علی نے ان چیلنجز کو قبول کر لیا اور اپنی مہم کا آغاز کیا۔ اُسے پتہ چلا کہ یہ مہم محض جسمانی طاقت کی نہیں بلکہ دل و دماغ کی آزمائش بھی ہے۔
باب 4: چیلنجز کا سامنا
پہلا چیلنج جھیل کے کنارے پر موجود گیند تلاش کرنا تھا، جو ایک لمبی پہاڑی کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔ علی نے اپنی عقل اور ہمت کا استعمال کرتے ہوئے گیند کو تلاش کیا۔
دوسرا چیلنج جادوئی درخت کی حفاظت کرنا تھا، جو جنگل کے وسط میں تھا اور ہر رات کی تاریکی میں کمزور ہو جاتا تھا۔ علی نے درخت کی حفاظت کے لیے اپنی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا، اور درخت دوبارہ طاقتور ہو گیا۔
تیسرا چیلنج خوابوں کی دنیا کے راز کو کھولنا تھا۔ علی نے پوری دنیا کا دورہ کیا، اور آخرکار اُسے ایک قدیم کتب خانہ ملا، جہاں اُس نے خوابوں کی دنیا کی تخلیق کا راز جانا—یہ دنیا دراصل خوابوں اور امیدوں کی ایک عکاسی تھی، جو ہر انسان کی دل کی گہرائیوں سے جڑی ہوئی تھی۔
باب 5: واپس گھر
علی نے اپنے چیلنجز مکمل کر کے بوڑھی عورت کو خوشخبری دی۔ عورت نے اُسے مبارکباد دی اور کہا کہ اب وہ خوابوں کی دنیا میں جاکر اپنی چاہتیں پوری کر سکتا ہے۔
مگر علی نے ایک اور راہ منتخب کی۔ اُس نے بوڑھی عورت سے کہا کہ وہ اپنے گھر واپس جانا چاہتا ہے، تاکہ اپنے والدین کو بتا سکے کہ خوابوں کی دنیا واقعی موجود ہے اور ہمیں اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔
علی نے گھر واپس آ کر اپنے والدین کو سب کچھ بتایا، اور کتاب کو دکان میں محفوظ رکھا۔ ہر شام، وہ کتاب کی طرف دیکھتا اور خوابوں کی دنیا کی خوبصورتی کو یاد کرتا۔
ختم شد
خوابوں کی دنیا کی سبق
علی کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ خوابوں اور امیدوں کی دنیا میں یقین رکھنا چاہیے، اور کبھی بھی اپنی مہمات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ زندگی میں مشکلات آئیں گی، مگر اگر ہم دل سے یقین رکھیں اور ہمت نہ ہاریں، تو ہم اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
ایک دن، ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں ایک نانی اپنے تین پوتوں کے ساتھ رہتی تھی۔ نانی کی کہانیاں بہت مشہور تھیں اور ہر رات بچے بڑے شوق سے ان کی کہانیاں سنتے تھے۔ آج کی رات نانی نے کہانی شروع کی۔
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا تھا جو بہت لالچی تھا۔ وہ ہمیشہ دوسرے جانوروں کا کھانا چرانے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دن، اس نے ایک خوبصورت چمچماتا ہوا ٹکڑا دیکھا جو ایک درخت کی شاخ پر رکھا ہوا تھا۔ وہ فوراً اسے لینے کے لیے اُڑا اور اپنی چونچ میں پکڑ لیا۔
جب کوا اُڑنے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ ٹکڑا بہت بھاری ہے۔ اس نے اپنی چونچ مضبوطی سے پکڑی اور اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اچانک، وہ تھک گیا اور ٹکڑا نیچے گر گیا۔ جب اس نے نیچے دیکھا تو وہ ٹکڑا ایک شیشہ کا ٹکڑا تھا، جس کی وجہ سے اسے چمچماتا ہوا نظر آیا تھا۔”
بچے دلچسپی سے کہانی سن رہے تھے اور نانی کی ہر بات کو غور سے سن رہے تھے۔
“لالچی کوا بہت شرمندہ ہوا اور اس نے سیکھا کہ کبھی بھی لالچ نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دن سے اس نے دوسروں کا کھانا چرانا چھوڑ دیا اور اپنے لیے ایمانداری سے کھانا ڈھونڈنے لگا۔”
بچے مسکرانے لگے اور نانی کو کہانی کے لیے شکریہ کہا۔ نانی نے انہیں پیار سے گود میں لیا اور کہا، “ہمیشہ یاد رکھو، لالچ بری بلا ہے۔ ہمیں ہمیشہ ایمانداری اور محنت سے کام لینا چاہیے۔”
باب 2: بہادر چوہا
اگلی رات، بچے دوبارہ نانی کے پاس آئے کہانی سننے کے لیے۔ آج کی کہانی کا عنوان تھا “بہادر چوہا”۔
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے چوہے نے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بڑے جنگل میں رہتا تھا۔ اس چوہے کا نام مانو تھا۔ مانو بہت بہادر تھا لیکن اس کے دوست اسے کمزور سمجھتے تھے کیونکہ وہ بہت چھوٹا تھا۔
ایک دن، جنگل میں ایک بڑا شیر آیا اور سب جانوروں کو ڈرانے لگا۔ سب جانور ڈر کر اپنے اپنے بلوں میں چھپ گئے۔ لیکن مانو نے فیصلہ کیا کہ وہ شیر کا مقابلہ کرے گا۔
مانو نے اپنے دوستوں سے کہا، ‘ہمیں شیر کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اسے جنگل سے بھگانا چاہیے۔’
سب جانوروں نے مانو کی بات مان لی اور ایک منصوبہ بنایا۔ مانو نے اپنے چھوٹے قد اور چالاکی کا استعمال کرتے ہوئے شیر کے بل میں گھس کر اس کی داڑھ میں ایک کانٹا ڈال دیا۔ شیر درد سے تڑپنے لگا اور جنگل سے بھاگ گیا۔
سب جانور مانو کی بہادری کی تعریف کرنے لگے اور اس دن سے مانو جنگل کا ہیرو بن گیا۔”
نانی کی کہانی ختم ہوئی تو بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ نانی نے انہیں سمجھایا، “ہمیشہ یاد رکھو، بہادری کا تعلق قد سے نہیں بلکہ دل سے ہوتا ہے۔”
باب 3: چالاک لومڑی اور بے وقوف بھیڑ
تیسری رات، بچے نانی کے پاس ایک اور کہانی سننے کے لیے آئے۔ آج کی کہانی کا عنوان تھا “چالاک لومڑی اور بے وقوف بھیڑ”۔
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چالاک لومڑی تھی جو ہمیشہ دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتی تھی۔ ایک دن، اس نے ایک معصوم بھیڑ کو دیکھا اور سوچا کہ اسے کیسے دھوکہ دیا جائے۔
لومڑی نے بھیڑ سے کہا، ‘میرے پیارے دوست، میں نے ایک خوبصورت جگہ دیکھی ہے جہاں بہت سا تازہ گھاس ہے۔ چلو، میں تمہیں وہاں لے چلتی ہوں۔’
بھیڑ لومڑی کی باتوں میں آ گئی اور اس کے ساتھ چل دی۔ جب وہ اس جگہ پہنچے تو وہاں ایک گہرا گڑھا تھا۔ لومڑی نے سوچا کہ بھیڑ اس گڑھے میں گر جائے گی اور وہ آرام سے اس کا شکار کر لے گی۔
لیکن جب بھیڑ گڑھے کے قریب پہنچی، اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ غلط ہے۔ بھیڑ نے اپنی معصومیت سے کہا، ‘لومڑی بہن، میں نہیں جانتی تھی کہ تم میرے لیے اتنی فکر مند ہو۔ لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ تمہیں پہلے وہاں جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ واقعی وہاں تازہ گھاس ہے یا نہیں۔’
لومڑی مجبوراً گڑھے کے قریب گئی اور جیسے ہی اس نے جھانک کر دیکھا، وہ خود ہی گڑھے میں گر گئی۔ بھیڑ نے موقع دیکھ کر وہاں سے بھاگ لی اور اپنی جان بچا لی۔”
نانی نے کہانی ختم کی اور بچوں سے کہا، “ہمیشہ اپنی عقل کا استعمال کرو اور دوسروں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ مت کرو۔”
بچے نانی کی کہانیاں سن کر بہت خوش ہوئے اور ان میں چھپی حکمتوں کو سمجھنے لگے۔ نانی نے ان کہانیوں کے ذریعے بچوں کو اہم سبق سکھائے جو ان کی زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں گے۔
A smart quote can capture the complexities of life, dreams, and success in a few words. For example, “Life is what we make it, dreams are what we see, and success is what we achieve,” highlights the importance of our actions, aspirations, and achievements. Such quotes inspire us to take control of our destiny, envision a better future, and work diligently towards our goals. By reflecting on smart quotes, we gain insights and find the encouragement to keep moving forward.
واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا وہ پرسوز واقعہ ہے۔ جو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ جس میں نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید کر دیے گئے تھے۔ یزید خلیفہ کے مسند پر برجمان ہو چکا تھا۔ اور اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام پر ڈٹ جانے والے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
جنہوں نے نانا کے حق دین پر مر مٹنے اور اسے بچانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ یزید سمجھ رہا تھا کہ والد اور بھائی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کمزور ہو چکے ہیں۔
اس نے سوچا اپنی طاقت کو مزید بڑھانے اور حکومت کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کرنے کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو راستے سے ہٹانا فائدہ مند ہو گا۔ لیکن اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ سردار جنت کے لیے دنیاوی خلافت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
کوفہ والوں کے سینکڑوں خطوط حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو موصول ہوئے۔ جن میں یزید اور اس کے اعلی کاروں کے مظالم بیان کیے جاتے تھے اور دین اسلام کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔
ایک اطلاع آپ کو یہ بھی ملی کہ شراب نوشی عام ہو چکی ہے۔ اپنے والد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی جائے شہادت پر جانے اور اپنے لوگوں کی رہنمائی کے لیے آپ نے مدینہ سے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا۔
کوفہ کی طرف روانگی
چنانچہ رجب سن ساٹھ ہجری کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بہتر (72) ساتھیوں کے ساتھ مدینہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ براستہ مکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اٹھارہ اہل بیت اور پچاس اصحاب کے ساتھ کربلا پہنچے۔
آٹھ ذوالحجہ کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ والوں کی اس شکنی کا اندازہ اس وقت ہو چکا تھا۔ جب آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سنی۔ لیکن آپ نے اپنا سفر جاری رکھا۔
شاید آپ اپنے نانا حضرت محمد اللہ علیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کا انتظار کر رہے تھے۔ جس کا ذکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا تھا۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق آپ نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مٹی دی اور کہا تھا یہ کربلا کی مٹی ہے۔ جب یہ سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا میرے جگر کا گوشہ اور میرے گھر کا پھول حسین ابن علی شہید کر دیا گیا ہے۔
مقام کربلا
حضرت امام حسین اہل بیت کے ہمراہ دو محرم الحرام سن اکسٹھ ہجری کو کربلا پہنچے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کی سواری کربلا کے ریگستان میں پہنچی، تو آپ کے گھوڑے پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ جیسے وہ یہاں سے آپ کو لے کر دور بھاگنا چاہتا ہو۔
آپ نے پوچھا یہ کون سا مقام ہے۔ تو معلوم ہوا یہ سرزمین کربلا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا قافلوں کو یہاں روک دیا جائے۔ ہم یہیں پر قیام کریں گے۔ اصحاب نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور کربلا کے بنجر ریگستان میں خیمے لگا دیے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی دعا
آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ سے دعا کی اے اللہ میرے نانا کے دین کی حفاظت فرما اور اسے زندہ اور آباد رکھ۔ آپ کو اطلاع مل چکی تھی کہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل، جن کو آپ نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا کہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آپ کو خبر دیں۔ ان کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے۔
کوفہ کے لوگ جو آپ کو بار بار خطوط بھیج رہے تھے۔ وہ کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے خوف یا لالچ سے حضرت مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ چکے تھے اور وہ کوفہ کی گلیوں سے بالکل ناواقف تھے۔
ابن زیاد کے ایک سپہ سالار نے ان کو امان کا وعدہ دے کر گرفتار کیا اور بعد میں انہیں کوفہ کے محل کی چھت سے دھکا دے کر شہید کر دیا۔ اپنے چچا زاد بھائی کی شہادت کا صدمہ اور کوفہ والوں کی بے وفائی کا افسوس آپ کو آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اور مقصد اتنا بڑا تھا کہ آپ پیچھے ہٹ نہیں سکتے تھے۔
غازی عباس
خیمے لگ چکے تھے اور ترتیب کچھ یوں تھی کہ سب سے آگے پہلا خیمہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا۔ یہ ایسے شہید ہیں جو غازی کہلاتے ہیں۔ حضرت عباس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی دوسری بیوی ام البنین سے ہیں۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج کے علمدار تھے۔ یزیدی فوج تین محرم الحرام کو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج کے راستے میں پڑاؤ ڈال چکی تھی۔ حالات کشیدگی کی طرف جا رہے تھے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اصحاب اور اہل بیت کو اکٹھا کیا۔ پھر آپ نے فرمایا “میں آپ سب لوگوں سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں۔ آپ آزاد ہیں جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ سب نے کہا ہم آپ پر جان نثار کریں گے۔ اپنے خون کے آخری قطرے تک دین حق کے لیے لڑیں گے”۔
لہذا اب دو راستے تھے یا واپس چلے جائیں یا حق پر رہتے ہوئے جنگ لڑیں۔ لیکن معلوم ہوا کہ واپسی کا راستہ یزیدی فوج بند کر چکی ہے۔ اب صرف جنگ تھی یا یزید کے ہاتھ پر بیعت۔
ابن زیاد کوفہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی کہلوا کر قتل کا فتوی لے چکا تھا اور اس نے مزید فوج کربلا روانہ کر دی تھی۔ تاکہ یزید کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
روایات کے مطابق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بہتر افراد کے مقابلے میں ابن زیاد نے چار محرم سن اکسٹھ ہجری کو بہت بڑی فوج کا لشکر لے کر کوفہ سے روانہ ہو گیا۔ حضرت امام حسین کے ساتھ یزیدی فوج کے مذاکرات جاری تھے۔
پانی کی بندش
سات محرم الحرام کو یزیدی فوج نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے خیمے پانی کے قریب سے اٹھا لیں۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے پانی بند کرنے کا یہ ظلم اس لیے برداشت کر لیا کہ کہیں بعد میں لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت امام حسین اور یزیدی فوج نے تنازعہ پانی کا کیا اور یہ جس پر لڑائی ہوئی۔
آپ نے ظلم برداشت کیا اور اپنے اصحاب کے ساتھ خیموں کو پانی سے دور لے گئے۔ تپتے صحرا میں سب لوگ پانی کی پیاس سے تڑپنے لگے۔ لوگوں نے پانی کا تقاضا کیا۔ لیکن یزیدی فوج نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر پانی بند کر دیا۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کسی صورت بھی یزید کے ہاتھ پر بیت کرنے کو تیار نہ تھے۔ آپ نے فرمایا ہمارا راستہ چھوڑ دو۔ ہم کوفہ یا کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن یزیدی فوج کسی بدقسمت جانور کی طرح طاقت کے نشے میں چور تھی۔ اس کے سربراہ نے کہا دو ہی راستے ہیں۔ آپ یا تو بیت کر لیں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
بعض روایات کے مطابق نو محرم الحرام کو یزید کی فوج میں مزید جنگجو شامل کر دیے گئے تھے۔ جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج کے بہتر جان نثاروں سے جنگ کرنے کربلا میں آئے تھے۔
نو محرم الحرام کی رات حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو یقین ہو گیا کہ یزیدی فوج آپ کا خون بہانے کے در پر تھے۔ آپ نے اپنے تمام اصحاب اور اہل بیت کو اکٹھا کیا اور فرمایا آپ میں سے جو جانا چاہے جا سکتا ہے دشمن اپنے لیے جہنم خریدنا چاہتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے نانا کی امت جہنم سے بچ جائے۔ لیکن وہ ہمارے خون کے پیاسے ہیں۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت امام حسین نے روشنی مدہم کروا دی کہ اگر کوئی جانا چاہے تو چلا جائے۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اپنے با وفا بھائی اور ساتھی کو کہا عباس روشنی بڑھا دو۔ یعنی حضرت امام حسین کو یقین تھا یہ میرا بھائی مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت
دس محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا۔ تو تمام اصحاب اور اہل بیت نے رات جاگ کر گزاری تھی۔ سب لوگ پیاس سے نڈھال تھے۔ سات محرم کی شام کو حضرت امام حسین کے حکم سے حضرت عباس چند افراد کے ساتھ یزیدی فوج کو دھکیلتے ہوئے فرات سے پانی کا مشکیزہ بھر کر لائے تھے۔
لیکن دس محرم کو فوج کئی گناہ بڑھ چکی تھی۔ حضرت امام حسین کی چار سالہ بیٹی حضرت بی بی سکینہ پیاس سے نڈھال تھی۔ انہوں نے اپنے چچا حضرت عباس سے پانی کا تقاضا کیا۔ حضرت عباس بی بی سکینہ اور حضرت علی اصغر کے لیے پانی لینے نکلے۔
آپ کے ایک ہاتھ میں علم تھا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔ آپ نے مشکیزہ اپنی پشت پر لٹکایا اور حضرت امام حسین کی اجازت سے پانی لینے روانہ ہو گئے۔ یزیدی دشمن گھاٹ لگائے بیٹھے تھے۔ علی زادی کی ہیبت اتنی تھی کہ کوئی سامنے آنے کی جرت نہیں کرتا تھا۔
یزیدی فوج کو پیچھے دھکیلتے اور روندتے ہوئے حضرت عباس پانی تک پہنچ گئے۔ آپ نے مشکیزہ پانی سے بھرا اور گھوڑے پر اپنے سامنے رکھ لیا۔ حضرت عباس تیزی سے خیموں کی طرف گھوڑا دوڑا رہے تھے کہ کسی تیر انداز نے ایک تیر مشکیزے پر مارا۔ جس سے پانی ضائع ہونے لگا۔
اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آپ نے تلوار والا ہاتھ مشکیزے کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے استعمال کیا اور پرچم بلند رکھا تلوار ہاتھ میں نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ایک یزیدی سپاہی نے جو درخت کی اوڑھ میں چھپا ہوا تھا۔
تلوار سے ایک زور دار وار کیا۔ جس ہاتھ میں علم تھا وہ بازو شہید کر دیا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے درد کی شدت کے باوجود علم دوسرے ہاتھ میں تھام لیا۔ چند تیر مشکیزے پر لگے پانی تیزی کے ساتھ ضائع ہونے لگا۔ اسی اثناء میں آپ کا دوسرا بازو بھی شہید کر دیا گیا۔ علی زادے کو بے دردی سے زخمی کر دیا گیا تھا اور آپ کے دونوں بازو شہید ہو چکے تھے۔
لیکن آپ ابھی زندہ تھے۔ شاید اسی نسبت سے آپ کو غازی کا لقب دیا جاتا ہے۔ ایک بدبخت نے پیچھے سے آپ کے سر مبارک پر برچی کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے۔ ایک ایک کر کے تمام اصحاب آپ پر جانیں قربان کر رہے تھے۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ان ظالموں کو آخر تک یہی ترغیب دیتے رہے کہ اے ظالموں کیوں اپنے لیے جہنم خریدتے ہو۔ مگر آپ کی ایک نہ مانی گئی اور ایک ایک کر کے آپ کے سب ہی ساتھیوں کو شہید کیا جا رہا تھا۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت
بالآخر آپ لڑنے کے لیے کربلا کے میدان میں اترے اور یزیدی فوج کی صفیں کی صفیں الٹ دی تھیں۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قہر بن کر یزیدی فوج پر ٹوٹے۔ دس محرم الحرام عصر کی نماز کا وقت ہوا۔ آپ گھوڑے پر سے اترے ریت سے تیمم کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔
یزیدی فوج کے بزدل سپاہی جو قریب ہی منڈلا رہے تھے اور حملہ کرنے کی جرت نہیں کرتے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نماز میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ پر حملہ کرنے کی جرت کرپائے اور چاروں طرف سے آپ پر تیروں کی برسات کر دی۔
نماز میں مصروف ہونے کی وجہ سے حضرت امام حسین کو تیروں کی تکلیف کا اندازہ نہیں تھا۔ یزیدی کو شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ علی زادہ ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نماز میں مشغول ہوتے تو اس قدر خدا کی یاد میں ڈوب جاتے کہ تکلیف کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔
جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سجدے میں گئے۔ تو شمر نے اپنی تلوار کی ضرب سے آپ کا سر مبارک جسم سے الگ کر دیا اور اس کو نیزے پہ بلند کیا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔ خیموں سے بی بیوں کے رونے کی آوازیں آئیں۔ تو یزیدی فوجیوں نے خیموں کو آگ لگا دی۔
ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔
اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔
راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔
اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔
یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔
اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔
اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔
“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔
Translation of: The story of the elephants
Abraha was the ruler of Yemen. He built a magnificent church in Yemen and announced to the people of Yemen that no one should go to Makkah for Hajj and consider this church as Bait Allah.
This announcement caused a wave of anger among the Arab people. Then one of them went to this church at night and spread dirt. When Abraha came to know this, he prepared a large army and marched towards Makkah.
On the way, several Arab tribes tried to stop him. But they were defeated by Abraha’s army. Finally, this army reached a place near Makkah. The next morning when he wanted to proceed towards Bait Allah. So his elephant refused to move forward.
At the same time, a flock of strange birds came from him and swarmed over the army. Each bird had three pebbles in its beak. which they started raining on the people of Lashkar. These stones tore the bodies of the army men.
Seeing this punishment, all the elephants ran away. Some of the soldiers of the army were killed and some who escaped died on the way. Abraha’s body was so poisoned that one of its joints began to rot and fall.
In this condition he was brought to Yemen. There the blood flowed from all over his body and expired. His death was most tragic. Two of his elephants were left in Makkah. who became crippled and blind.
In this way Allah protected His house and made those who were proud of their power taste the punishment. In Surah Fail of the Holy Qur’an, Allah described this incident as follows.
“Have you not seen what your Lord did to the elephants?” Did not make their Capricorn useless? And sent upon them flocks of flocks of birds. Who were hitting them with mud and stone pebbles. So he made them like straw that has been eaten.”