Life quotes in Urdu carry deep wisdom and resonate with universal truths that touch the heart. They reflect the beauty of resilience, hope, and inner strength, often inspiring us to face life’s challenges with courage and patience. From timeless messages about hard work and perseverance to reminders of finding joy in small moments, Urdu life quotes encapsulate a profound simplicity. They encourage us to stay positive and grounded, teaching valuable lessons like the importance of kindness, embracing change, and the belief that after every hardship, relief will come. These quotes are more than just words; they’re guiding lights for navigating life’s ups and downs.
بایلو ایک چھوٹا سا بلی کا بچہ تھا جس کی زندگی کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا تھا۔ گاؤں میں اسے سب “بایلو کی خدمت” کے نام سے جانتے تھے، کیونکہ وہ ہمیشہ لوگوں کے کام آتا تھا۔ کبھی وہ دودھ گرنے پر اسے صاف کر دیتا، تو کبھی کسی کی گری ہوئی چادر اٹھا کر دے دیتا۔ اس کے دل میں ہر وقت دوسروں کی مدد کا جذبہ ہوتا تھا۔
ایک دن، جب گاؤں کے بوڑھے چاچا جان بیمار ہو گئے، تو بایلو کی خدمت کا جذبہ اور بھی بڑھ گیا۔ اس نے اپنے ننھے قدموں سے دوڑتے ہوئے چاچا جان کے لیے کھانا لانے کی کوشش کی، اور گاؤں کے لوگوں کو بھی ان کی مدد کے لیے اکٹھا کیا۔ سب کو بایلو کی محبت بھری خدمت نے متاثر کیا۔
بایلو کی خدمت نے نہ صرف چاچا جان کی زندگی کو آسان بنایا بلکہ گاؤں بھر میں اس کی محبت اور عزت بھی بڑھا دی۔ لوگ اسے گاؤں کا سب سے ہمدرد بلی کا بچہ ماننے لگے، اور وہ ایک مثال بن گیا کہ کیسے چھوٹے اعمال بڑے دلوں کو جیت سکتے ہیں۔
نتیجہ: بایلو کی خدمت نے یہ ثابت کیا کہ مدد کا جذبہ کبھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، بلکہ یہ دل کی خلوصیت ہوتی ہے جو کسی کو سب کا پسندیدہ بنا دیتی ہے۔
Top Jummah Mubarak Quotes are a beautiful way to celebrate this blessed day, reminding us of the importance of faith, gratitude, and community. Sharing these quotes can inspire positivity and encourage reflection among friends and family. Whether it’s expressing thanks for Allah’s countless blessings or seeking His mercy, these quotes resonate deeply with the spirit of Jummah. Use these heartfelt messages to uplift those around you and spread joy on this sacred occasion. Embrace the essence of Jummah with the Jummah Mubarak Quotes!
Ayan is a Muslim Boy Name, it has multiple Islamic meaning, the best Ayan name meaning is God Gift, and in Urdu it means خدا کا تحفہ. The name is Hindi originated name, the associated lucky number is 7.
ایان نام کا شمار لڑکوں کے ناموں میں ہوتا ہے۔ ایان نام کی ابتدائی تاریخ ہندی زبان سے نکلتی ہے۔ ایان نام کے افراد کے لیئے خوش قسمت نمر 7 مانا جاتا ہے .ایان نام کا مطلب خدا کا تحفہ ہے جبکہ خوش قسمت دنوں میں منگل, جمعرات شامل ہیں ۔ خوش قسمتی والی دھاتوں میں ہندسوں کے حساب ے تانبا, لوہا شامل ہیں ایان نام کے افراد کے لیئے موافق رنگوں میں سرخ, بنفشی شامل ہیں۔ ایان نام کے افراد کے لیئے موافق پتھروں میں روبی شامل ہیں .
A beautiful and meaningful name beautifies the personality of the child. Ayan name is a famous Muslim baby name which is often preferred by parents. Ayan name meaning is “God gift”. Ayan name meaning in Urdu is “خدا کا تحفہ”. Many people with the name Ayan has earned fame all around the world.
Names are the source of recognition and a meaningful name enhances the charm of an individual. Certain names bring good fortune to one’s life. According to Numerology Prediction, the lucky number associated with the name Ayan is “7”. Lucky days for Ayan name holder are tuesday, thursday. red, violet are the lucky color for a person with Ayan name.
Ayan name holders can choose ruby as their lucky stones however copper, iron are the lucky metals for this name. This page provides the authentic and alternative spellings of Ayan name. Ayan name meaning in English and Urdu are available here. The list of famous people with the name Ayan can be discovered on this page. Find all latest and famous Islamic baby names here.
Q. What is the Lucky Number of Ayan?
The lucky number associated with the name Ayan is “7”.
Q. What does Ayan name mean?
Ayan name meaning in Urdu is “خدا کا تحفہ”. In English, Ayan name meaning is “God gift”.
Q. What is the religion of the name Ayan?
The religion of the name Ayan is Hindu.
Q. What is the origin of Ayan name?
The origin of the name Ayan is hindi.
Q. What is the auspicious color of the name Ayan?
For the name Ayan, the lucky color is red, violet.
If you’re looking for inspiration from the natural world, here are the 3 Best Deep Nature Quotes in Urdu that capture the essence of nature’s wisdom. These quotes remind us of the profound connection between humans and the environment. From appreciating the earth’s beauty to understanding life’s deeper meanings through nature, these Urdu translations convey powerful messages that resonate with the soul. Whether you’re seeking peace or deeper insights, these nature quotes in Urdu are sure to inspire a sense of awe and reflection.
The Spiritual Significance of Jumma Mubarak Quotes in Urdu
Jumma Mubarak Quotes in Urdu hold a special significance for Muslims around the world as they share heartfelt messages of blessings, peace, and spiritual reflection on the sacred day of Jumma (Friday). These quotes, written in the beautiful Urdu language, often remind believers to seek Allah’s mercy and express gratitude. Whether shared through social media or exchanged among family and friends, Jumma Mubarak Quotes in Urdu inspire people to make the most of this blessed day, offering prayers and spreading positivity. Each quote serves as a reminder of faith, unity, and the importance of Jumma in Islamic tradition.
Share your favorite Jumma Mubarak Quotes in Urdu in the comments below and spread the blessings of this holy day! Let’s inspire each other with positivity.
Short Nature Poetry is a collection of minimalist verse that celebrates nature’s beauty through calm and serene moments. These short poems capture the essence of the natural world, using vivid nature imagery to inspire a sense of peace and tranquility. Perfect for lovers of simple poetry and outdoor inspiration, each verse offers a glimpse into nature’s quiet rhythms.
وہ بہت حسین صورت تھی ۔ جن کے لیے کہا جاتا ہے لاکھوں میں ایک۔ پہلی نظر میں وہ چینی سی گڑیا کوثر کو بڑی من موہنی سی لگی – انسان کی اصل خوب صورتی اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ تو کچھ ہی دنوں میں اس ساری خوب صورتی کا پردہ چاک ہو گیا۔ اس کی اصل خوب صورتی بھی سامنے آ ہی گئی۔ چند بالشت کی بڑی من موہنی چینی کی گڑیا جیسی نازک چھٹانک بھر لڑکی کی فٹوں لمبی زبان۔ اس کا نام نیلم تھا۔ وہ اک چلنی پرزہ لڑکی تھی۔ کوثر کو یہ بات کچھ دنوں میں جا کر سمجھ آئی۔ کوثر کا شوہر اسلم والدین کے گزرنے کے بعد اس دو منزلہ مکان کا اکلوتا وارث تھا۔ اس کا کیا کیا جائے کہ مہنگائی کے اس دور میں ایک تنخواہ پر گزارا ممکن ہی نہ تھا۔ اسلم کی اک کمائی ۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ۔ سو نچلا پورشن کرایہ پر اٹھانا بھی ان کی مجبوری ٹھہری۔ اگر چہ کوثر کرایہ دار کے معاملہ میں انصاف سے چلتی ۔ نچلے پورشن میں کرایہ دار کے لیے۔ مقدور بھر ہر آرام و سہولت میسر تھی ، گیس اور بجلی کے بل میں ساجھا تھا ۔ گرمیوں میں پانی کی تنگی پڑ جاتی ۔ کرائے کے مکان اک اک کر کی خالی ہوتے چلے جاتے ۔ اب کرایہ دار تو منہ اٹھا کر جہاں مرضی چلے جائیں، مکان دار کہاں جائیں۔ کرایہ دار کے گھر پر اگر نیلم جیسی مکار اور چالباز لڑکی کی اجارہ داری تھی۔ تو لے دے کیوں نہ ہوتی ۔ ماں بیٹیوں سمیت گھر کا گھر کمانے جاتا۔ دن بھر گھر میں نیلم رہتی ۔ اور گھر بھر کی باگ دوڑ اس کے ہاتھوں میں تھی۔ تنخواہیں ساری کی ساری اس کے ٹھپہ میں جاتیں۔ شاید اسی لیے گھر بھر میں اس کی چلتی ۔اور اس کا راج – الامان الحفیظ۔ ماں بیٹیوں سمیت گھر کا گھر کمانے جاتا۔ دن بھر گھر میں نیلم رہتی ۔ اور گھر بھر کی باگ دوڑ اس کے ہاتھوں میں تھی۔ تنخواہیں ساری کی ساری اس کے ٹھپہ میں جاتیں۔ شاید چوپٹ اماں کو دکھائی تو پڑتا۔ سنائی نہ دیتا۔ اس پر کانوں کی کچی نیلم ان کو جو چابی بھر دیتی۔ وہ اسی پر پھد کتی پھرتیں۔ نکمے ابا۔ بیٹیوں کی کمائی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر کھاتے ۔ کام کے نام پر دنیا زمانے کی خاک چھان کر گھر لوٹتے تنخواہ کے نام پر منہ چڑا جاتے تو شور مچتا۔ ماں بیٹیوں کے کمانے کے سبب گھر میں نکے ابا کی حیثیت صفر تھی۔ تب بھی وہ چھاتی پرچڑھ کے دندناتے – کبھی جو فساد پڑتا، رات میں دن نکل آتا۔ دنیا تماشا دیکھتی۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی گوارا تھی۔ ان کی زبانوں کا پھرنا ، دھاندلی ، اور اس پر دھوکا بازی، ڈھٹائی الامان الحفیظ۔ ایک پنکھا…. دو بلب بتا کر مکان لیا گیا تھا ۔ کچھ ہی دنوں میں کایا پلٹ گئی۔ اک ایک بجلی کے سب آئٹمز آگئے ۔ صاف کھلی دھو کہ بازی تھی۔ گھر بھر کے کام پرجانے پر بھی۔ بجلی کی بچت کہاں سے ہوتی تھی ۔ صبح کا ناشتا ڈ کار … دو پہر کی روٹی باندھ کر ہی تو ٹلتے۔ کیس کا چولہا دھڑا دھڑ جلتا ۔ دن رات پنکھے فریج اور بلب جلتے یونٹ تین سو سے بڑھ کر بنے تو بجلی کا بل دگنا۔ گرمی کی شدت میں پانی کی تنگی پڑی تو ٹینکر ڈلوایا اور ٹینکر کے پیسے کرائے سے کاٹ لیے تو وہی نیلم کا طوطے کی طرح آنکھیں پھیرنا کہ کرایہ پانی بجلی گیس سمیت بنتا ہے۔ گیس بجلی کے بل آئے تو کوثر نے سر پیٹ لیا۔ آدھے سے زیادہ کرایہ بلوں میں پھنک گیا۔
کچھ دنوں میں دیکھنے میں آیا کہ چھ افراد کا تو بس اک نام تھا۔ در حقیقت ایک گھر میں دو کنبے پلتے – دن بھر پیاری بیٹی کا پڑاؤ یہیں رہتا۔ وہ خود کرایہ کے گھر کی مکین کسی فیکٹری میں کام کرنے جاتی ۔ دن بھر بچہ نیلم کے پاس رہتا۔ صبح اسے فیکٹری ڈراپ کر کے داماد صاحب دن بھر بچہ نیلم کے پاس رہتا۔ صبح اسے فیکٹری ڈراپ کر کے داماد صاحب کی بائیک سسرال کے آنگن میں آن کھڑی ہوتی ۔ بچے کے بہانے ۔ وہ خود بھی وہیں پڑا نظر آتا۔ تو ان کا اپنا تو بجلی گیس و دیگر خرچ بچتا ۔ پھر سننے میں آیا۔ نیلم کا رشتہ کسی بڑھیا گھرانے کے لائق وفائق سپوت سے اس داماد صاحب کے توسط سے طے پایا تھا۔ شاید اس احسان کا خراج وصولنے کو وہ دن رات سسرالیوں کے جھرمٹ میں راجا اندر بنا چمپی کراتا رہتا۔ گھر بھر پر داماد کی دھاک ہی نہیں راج بھی چلتا تھا۔ اک لفظ اسے کہنے کی دیر تھی ساس سسر سمیت سالیاں تک میدان میں اتر آتیں۔ پھر اسی پر بس نہ رہی۔ کچھ دن گزرے کرایہ داروں کے گھر کا مختصر سامان ایک کمرے میں سمٹ گیا۔ آنے بہانے پہلے بہن بہنوئی کا بوریا بستر آیا۔ اور پھر مکمل پڑاؤ۔ اب بھلا آسان بات ہے۔ چھ افراد کی جگہ نو افراد کا خرچ ۔ دیگر معاملات تو رہے ایک طرف بائیک کا پہیہ گھسیٹ گھسیٹ کر داماد صاحب نے صدر دروازہ کی چولیں ہلا دیں۔ اک روز دروازہ کٹے ہوئے شہتیر کی مانند زمین بوس ہوا۔ لوجی چھٹی ہوئی۔ معرکہ تو ہونا ہی تھا۔ کوثر کے پڑھانے پر اسلم نے ان کا گھیراؤ کیا۔ اور وہی، نکمے ابا کا طوطے کی مانند آنکھیں پھیرنا ۔ ہمارے گھر ہماری بہن بیٹی نہ رہے گی تو کیا آپ کی رہے گی۔ پرلے درجے کا عامیانہ انداز تھا۔ اسلم کا خون کھول کر رہ گیا۔ کہانی صاف تھی۔ نکمے داماد ، کرایہ اور گھر کا خرچ بچانے کو سسرال کے ٹکڑوں پر آ پڑے تھے۔ ان کے گھر کا کارخانہ سسرال ، بیگم اور سالی کے دم سے چلتا تھا ۔ بیگم گھر کی دال روٹی چلانے کو فیکٹری سدھارتی ۔ تو بچہ نیلم سنبھالتی ۔ اور اب تو صاف بے روزگاری کا بہانہ لے کر ، سسرال کے در پر آ پڑے۔ اسی داماد کی نظر عنایت سے نیلم کا رشتہ اس کے جگری دیرینہ دوست سے طے پایا تھا۔ گھرانہ کھاتا پیتا تھا۔ سوزمین پر دھنسے، گڑ ا ہلتے ، اپنے گھر کی جگہ صاف ستھرے علاقے میں گھر لینا بھی ان کی مجبوری ٹھہری۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ کوثر کا سارا کرایہ بلوں کی مد میں پھنک جاتا ۔ صدر دروازہ، داغ مفارقت دے گیا تو خرچ ہزاروں کا بنتا تھا۔ وہاں پر واہ کس کا فر کو تھی۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی چلتی ۔ مگر بات سے بات نکلتی تھی۔ سواک اور بات سامنے آئی۔
اس روز کسی کام سے کوثر نے نچلے پورشن میں جھانکا نیچے کا منظر دیکھ کر کوثر کی آنکھیں کھل گئیں – سالی بہنوئی کی ایسی محبت کہیں دیکھی نہ سنی – نیلم مزے سے پیر پسارے، کان میں ہینڈ فری ٹھونسے، پیر ہلا رہی تھی اور بہنوئی صاحب انہی قدموں پر مزے سے سر رکھے نجانے کون سے راز و نیاز میں مصرو ف تھے – پھر یہ مناظر آئے روز نظر آنے لگے۔ بیوی کو فیکٹری ڈراپ کر کے یہاں سب سرالیوں کے سارھانے کے بعد سسر سے چار ہاتھ بڑھ کر نکمے بہنوئی صاحب کا ٹھکانا یونہی سالی کے قدموں میں رہتا۔ اس دوران بھی جو کوئی بھولا بھٹکا نکل ہی آتا ۔ وہ دم دبا یہ جا وہ جا۔ اب یہ تو کہنے والی بات ہی نہ تھی اندھے کو بھی نظر آتا تھا کہ بہنوئی صاحب کی نکل پڑی تھی۔ یہاں تو اندھیر نگری والا معاملہ تھا۔ کسی کی کوئی کل ٹھکانے پر نہ تھی۔ اس پر ان کے مزاج، الامان الحفیظ ۔ مکان کا کرا یہ کیا دیتے ۔ مانو مالک مکان کو اس کے مکان سمیت خرید رکھا ہو۔ گھر کا گھر چھاتی پر چڑھ کردند تا نظر آتا اور سب سے بڑھ کر ڈھائی فٹ کی فتنی نیلم ۔ اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو۔ ہم مالک مکان کو اتنا سر نہیں چڑھاتے ۔ وہ یوں بولی جیسے مالک مکان سے گھر کی جھاڑو لگواتی رہی ہو۔ سو غضب کی ٹھنی اور ایسی ٹھنی کہ محلہ والوں نے بھی تما شا دیکھا۔ اور نیلم کی باون گز کی زبان ایک طرف اور ساری دنیا ایک طرف پھر کوثر بھلا کیسے پیچھے رہتی۔ سورج کے لتے لیے۔ وہ کہاں خاطر میں لاتے تھے۔ جائیے جائیے کرایہ دے کے رہتے ہیں۔ کوئی مفت میں نہیں رہتے اس گھر میں ۔ تو کس نے کہا ہے کہ کرایہ بھرو- کوئی تمہیں مفت میں رکھتا ہے تو مفت میں رہ اور کس سے پوچھ کے تم نے دوسری فیلی ساتھ رکھی ہے۔ مل بانٹ کے کرایہ دو گے تو فائدہ تمہارا ہی ہے نا۔ ایسی تیسی تو ہماری ہو گئی۔ یوں ہے تو یونہی سہی ۔ آپ اپنے کرائے سےمطلب رکھے۔ مکان خالی کرو میرا ایسے بے ایمان کرایہ دار ہم نہیں رکھتے ۔کیوں خالی کر دیں ۔ مکان کیا دو چار مہینے کے لیے کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ نیا مکان ڈھونڈنا۔ سامان ڈھونا ۔سستا کام ہے کیا ۔ جب خالی کرنا ہو گا بتادیں گے ۔ گیس پانی بجلی سب کنکشن او پر تھے۔ کوثر نے سارے وال بند کرنے کی دھمکی دی۔ وہاں پروا کس کافر کو تھی۔ آپ کر کے دکھائیے ۔ پھر کرایہ کس سے وصول کریں گی۔ یہ اسی چھٹانک بھر کی آفت کی پر کالا کی زبان تھی۔ لیجے جناب ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ کرایہ نامہ میں صاف درج تھا کہ کرایہ دار ساجھا کرنے کا پابند ہے۔ اس بار زمانے بھر کے نمکے ابا میدان میں اتر آئے۔ تو جائیے۔ تھانہ پولیس آپ جیسے شریف لوگوں کے لیے ہی تو ہیں۔ جائیے۔ پولیس کی مدد لیجیے۔ وہیں فیصلہ ہو جائے گا۔ کوثر نے سر پیٹ لیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھا نہ پولیس سے دبنے والے لوگ نہیں ہیں اور اس پر وہی ڈھٹائی و دھاندلی۔ تم سے مکان خالی کرایا جائے تو کرا کے دکھاؤ۔ چپ کر اپنی اوقات میں رہ۔ دو بالشت کی لڑکی ہو کر سر کو چڑھتی ہے ۔ کوثر کو غصہ آ گیا۔ تو چپ کرہڈی نہیں ملی تو بھونک رہی ہے ۔ ادھر جواب دو بدو تھا۔ کوثر کی سماعتوں کو کوئی سنسنا تا ہوا تیر چھید تا گزرتا چلا گیا۔ ادھر نیلم کے فرشتوں کو بھی کیا خبر تھی کہ یہ گالی خود اس کے گلے پڑ جائے گی۔ کوثر نے اوپر کی منزل کا سارا ملبہ کاٹھ کباڑ نیچے کھینچ مارا۔ اک ہا ہا کار مچ گئی۔ مگر اس کے اندر کی کھولن نہ مٹی۔ نہ اس گالی کا ازالہ ہو سکا۔ کانوں میں بار بار وہ گالی سائیں سائیں گونجتی ۔ اک زمانہ ان کی عظمت و شرافت کو سلام کرتا تھا۔ اور اس بالشت بھر کی لڑکی کی یہ مجال۔ بعد ازاں اسلم بار بار اسے تسلی دیتا رہا۔ جانے بھی دو۔ گالی تمہارے چپک تو نہیں گئی نا تم نے بھی تو حد کر دی۔ اوپر سے اینٹیں پتھر، اور جانے کیا الا بلا نیچے کھینچ مارا۔ کسی کے لگ جاتی تو لینے کے دینے پڑ جاتے ۔ مگر کوثرکے کلیجے میں جیسے برچھی سی اتر گئی تھی۔ – اس کے اندر کی کھولن نہ مٹتی ۔ کانوں میں وہ گالی بار بار گو نجتی ۔ اس کے اندر آگ ہی آگ بھر جاتی ۔ بس نہ چلتا سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دے۔ قریب تھا کہ نوبت تھا نہ پولیس پر آجاتی کہ پرلے درجے کی گھنی مسینی اماں اور نکمے ابا نے جانے کن وقتوں میں موقع تاک کر اسلم کو جالیا اور جانے کیا کچھ کہا کہ وہ الٹا کوثر کو ہی سمجھانے بیٹھ گیا۔ جانے بھی دو فساد تو تمہارا نیلم سے ہے نا۔ اور وہ بے چاری ہے کتنے دن کی ۔ اگلے مہینے تو شادی ہے ۔ اور کوثر تو جیسے بھری ہی بیٹھی تھی -مت کہیں اسے بے چاری ۔ فتنی ہے فتنی ۔ چھٹا نک بھر کی لڑکی نے سارے گھر کو مٹھی میں کس رکھا ہے۔ گھر بھر کے منہ میں اس کی زبان بولتی ہے ۔اگر ایسا ہے بھی تو وہ جانیں ۔ ہمارا کیا لینا دینا ۔ہاں تو میں بھی دیکھوں گی نا۔ اس کی فٹوں لمبی زبان اور مکار فطرت کو کون جگر والا بھگتے گا۔ چار دن میں چٹیا پکڑ کر باہر نہ نکال دیے تو میرا نام بدل دینا- اوہو کوثر تم بھی حد کرتی ہو۔ یہ ان کے معاملات ہیں۔ وہ جانیں ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔ اچھا اور وہ جو آئے بہانے ماں کے کان بھر کے سو بار مجھ پر چڑھائی کروانے کی کوشش کر چکی مجھے ہے یہ قطامہ -ہاں تو تم کون سا ادھار رکھتی ہو۔ منٹوں میں لتاڑ کے باہر کا رستہ دکھا دیتی ہو۔ اور چھوٹتے ہی مکان خالی کرنے کا الٹی میٹم ۔ تو اور کیا ان کے پیر پڑ جاؤں ۔ میں تو کہتی ہوں تھا نہ پولیس کے ذریعے نکال باہر کروان کم بختوں کو-اب دیکھو انسان کو نرمی اور جھکاؤ تو رکھنا ہی پڑتا ہے نا۔ اس طرح بات بات پر تھانے پولیس پر اتر آئیں تو گھر بد نام ہو گا۔ کوئی کرایہ دار نہیں ٹھہرے گا۔ ارے بھاڑ میں جائے ۔ پڑا رہے خالی ۔ ان بدبختوں سے تو جان چھوٹے ۔ اور یہ پرلے درجے کی فتنی چالباز نیلم خود کو کسی ریاست کی مہارانی سمجھے لگی ہے۔ دیکھوں گی۔اس کی یہ اکڑ دوسروں کے گھر کیسے چلتی ہے ۔ کسی کی مجبوری سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کے رشتے کے لیے مناسب گھر لینا کوئی نرالی بات تو نہیں ہے۔ وہ بتارہے تھے کہ ان کے اپنے گھر پر اثرات ہیں۔ اس کا بکنا بھی مشکل ہے۔ کوثر کے تلوؤں کو لگی سر پر بھجی۔ پرلے درجے کے جھوٹے ، مکار اور فریبی لوگ ہیں۔ اور ایسے کوئی لعل نہیں جڑے ہیں۔ ہمارے گھر میں ۔ انہیں مکان بہت ہمیں کرایہ دار بہت – اللہ سے سو بار معافی کے ساتھ …. ان کے گٹر ا بلتے زمین میں دھنسے گھر سے تو لاکھ درجے بہتر ہی ہے تا۔ اب تم جیسی عورت کو یہ سمجھانے والی بات تو نہیں کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو تو رب تمہیں آسانیاں فراہم کرے گا۔ نیلم کے بعد کرن …. اور کرن کے بعد عالی تم دیکھ لیتا، یہ سالوں سال یہاں سے کہیں سرکنے والے نہیں ہیں۔ یونہی ہماری چھاتی پر چڑھے مونگ دلتے نظر آئیں گے۔ اگر ایسا ہے بھی تو کیا برا ہے۔ نچلے پورشن کے تین کمرے ان کے لیے زیادہ ہیں۔ گھر کا سامان کم ہے۔ رہے بل تو یہ معاملات تم مجھ پر چھوڑ دو۔ ہر مسئلےکا کوئی نہ کوئی حل تو ہوتا ہی ہے نا ۔ ارے مجھ سے پوچھو۔ انہیں کرایہ بھاری پڑرہا ہے۔ نکمے داماد کماؤ بیٹی کو گھر میں ڈال لیا۔ تو کرایہ میں ساجھا بن گیا۔ ہماری ایسی تیسی ہوگئی۔ دونوں ہی کو ایک دوسرے کا آسرا ہے۔ کرایہ خرچ میں سہولت ہوگئی وہ الگ ۔ بیگم دن رات نوٹ چھا پتی ہیں تو یوں کہ بچہ نیلم کے ہاتھوں میں پل رہا ہے۔ لگے ہاتھوں بہنوئی صاحب بھی چلتی گنگا میں ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں ۔ روانی و جذبات میں کوثر کے منہ سے سچ نکل گیا۔اسلم اسلم ٹھٹکا .. چلتی گنگا؟ ناچار اسے بتانا ہی پڑا۔ اور اسلم کی وہی ازلی شرافت و اعلیٰ اوصاف جن پر ریجھ کر کوثر کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ اب دیکھو اگر بات سچ نہ نکلی بہتان ہی ہوا نا ۔ اور اگر ایسا تھا بھی تو تم نے ان پر کان یا نظر رکھ کر کچھ اچھا کیا ؟ مگر کوثر کو پکا یقین تھا معاملہ کچھ اور ہے۔
نہ نہ کرتے۔ اسلم کی بات اس کی عقل میں سماہی گئی۔ کچھ دنوں میں بات آئی گئی ہوگئی۔ نیلم کی شادی سے کچھ پہلے اسلم نے دوڑ دھوپ کر کے پچھلے پورشن کے لیے بجلی کا الگ کنکشن لگوا دیا تھا۔ لو جی گل ای مک گئی۔ نیچے دو فیملیز کے سبب ۔ گیس کے بل کی مد میں دو – حصہ ان کی طرف لگائے گئے۔ اسلم نے ہر معاملہ چار لوگوں میں بیٹھ کر نمٹایا تھا۔ پھر شادی کا ہنگامہ جاگ پڑنے سے قبل کوثر و نیلم کو گلے ملوادیا تھا۔ مگر گلے ملنے سے دلوں کی کدورتیں مٹ جاتیں تو کیا ہی کہنے۔ پھر اسی ماہ شادی پر جو طوفان بدتمیزی نہ مچنا تھا۔ مچا۔ ساری ساری رات فل والیوم میں ریکارڈنگ،کوثر لہو کے سوسو گھونٹ پی کے جلتی۔ اسلم کا پڑھایا در گزر کا سبق اپنی جگہ درست نہیں۔ مگر اس کے دل و دماغ سے وہ گالی نہ نکلتی۔ جب بھی یہ لفظ اس کی۔ سماعتوں میں گونجتا اس کے اندر اک غبار سا بھر جاتا۔ تسلیم کی شادی میں کوثر نے مارے باندھے شرکت کی تھی۔ دولہا پر نظر پڑتے ہی کوثر کی تمام امیدوں پر پانی پر پڑ گیا۔ شکل سے ہی دبو، زن مرید سا نظر آتا تھا۔ نیلم جیسی مکار چالباز ، چینی پرزہ لڑکی ، جلد ہی اس کی لگا میں کس لے گی۔ گمان پختہ تھا۔ کھانے سے فراغت کامیرپاتے ہی ۔ جب دلہن سج دھج کر اسٹیج پر آرہی تھی۔ کوثر بچوں کے سونے کا بہانہ لے کر اٹھ گئی تھی۔ ک دلہن بڑی نازک پیاری سی ہے۔ یہ کسی باراتی خاتون کا نیلم کے لیے تبصرہ تھا۔ کوثر نے گزرتے ہوئے سنا تو دل ہی دل میں ہنسی ۔ جب گز بھر کی زبان سے پالا پڑے گا تو پوچھوں گی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ کچھ خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ گمان بھی اوندھے منہ چاپڑتے ہیں۔ سو یہ معاملہ بھی کوثر کی امید و توقعات کے برخلاف الٹا پڑ گیا تھا۔نیلم کی سسرال میں گھر بھر پر ساس صاحبہ کا راج تھا۔ سو سب سے پہلی تان میکے آمد پر ٹوٹی۔ وہ جوان سب کا خیال تھا کہ پہلی پیاری بیٹی کی طرح نیلم بھی بہانے بہانے میکے پڑی رہے گی۔ مالدار گھرانے میں بیٹی بیاہ کر چاروں ہاتھوں سے چوری چھپے کی کاروائیاں بھگتائی جائیں گی – لگے ہاتھوں بہنوئی صاحب بھی برسوں پرانی دوستی کی آڑ میں اپنا الوسیدھا کرتے رہیں گے۔ مگر وہ جو کہتے ؟ سیر کو سواسیر . تو وہی بات رہی۔ بات نیلم کے میکے آنے پر آ تی تو سو بہانے تیار- کبھی جو ساس نند کے جھرمٹ میں چلی ہی آتی تو وہ سب چپل کی طرح اس کی چوکیداری کرتیں۔ موبائل فون کی اجازت نہ تھی۔ سنا کہ گھر بھر کی نوکرانی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں سارے کس بل نکل گئے تھے۔ باون گز کی زبان حلق میں جا پڑی تھی۔ اب ان ماں بیٹیوں کا زیادہ وقت نیلم کی بڑھیا ساس کی شان میں قصیدہ خوانی میں گزرتا۔ یہ تو کہنے والی بات ہی نہ تھی۔ ان کا گھر او ندھا پڑ گیا تھا۔ وہ سب نیلم کی شکل کو ترس گئے تھے۔ کچھ دنوں میں سننے میں آیا کہ بہنوئی صاحب پر بھی بین لگ گیا۔ وہ جلبلا کر، وقت بے وقت فون گھماتے ۔ نیلم کے شوہر کے دماغ میں شک کا کیڑا کلبلاتا ۔ انہوں نے برسوں پرانی دوستی کی شرم دلائی ۔ نیلم کے میاں نے اس دوستی پر ہی مٹی ڈال دی ۔ لوکر لوگل – کوثر نے سنا تو خوب ہیں مزا لیا۔ جیسے کو تیسا ۔ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ والا معاملہ تھا۔ نیلم کی ساری بھوں پھاں ناک کے راستے نکل گئی تھی -سسرال والوں نے اس کی لگامیں کس لیں تھیں۔
نیلم کا ولیمہ، اگلے ماہ ، نند کی رخصتی کے ساتھ تھا ۔ اور ہائے ر ی عورت کی چٹخارہ باز فطرت – کوثر کھنچی چلی گئی تھی۔ ڈنر سے کچھ پہلے جب اسلم سگریٹ پینے کے لیے شادی ہال سے باہر نکلا۔ کوثر کا گود والا بیٹا باپ کے لیے مچلنے لگا۔ کوثر اسے لیے باہر آئی تو اسلم نیلم کے شوہر کے ساتھ کھڑا پایا۔ اسلم بچے کو آئس کریم دلانے نکل گیا۔ اور کوثر کی ایک رسمی سی احوال پوچھنے کی کی دیر تھی ، وہ پھٹ پڑا۔ پرلے درجے کی مکار اور سیاست دان ہے یہ نیلم، گھر میں قدم رکھتے ہی میرے کان بھر کے گھر میں پھوٹ ڈالوا کر گھر بھر سے میرا دل پھیرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ اللہ بھلا کرے اماں کا انہیں بہوؤں کو سنبھالنے کا ہنر آتا ہے۔ اب عورت گھر کے کام کاج نہ کرے گی تو کیا کرے گی۔ اس کا دھیان جانے کہاں سفر کرتا ہے۔ اپنی اوقات سے بڑھیا زندگی نصیب ہے مگر اس کا دل نہ جانے کہاں پڑا رہتا ہے۔ مجھے تو دال میں کالا لگتا ہے۔ آپ تو مکان دار ہیں۔ آپ کو تو پتا ہوگا ؟ وہ بری طرح بھرا ہوا اور چڑا ہوا لگتا تھا۔ کوثر کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نیلم کی گالی کانوں میں سائیں سائیں گونجنے لگی۔ لوہا گرم تھا۔ بس اک چنگاری کے ہوا دینے کی دیر تھی۔ آگ ہی آگ پھیل جاتی سب کچھ بھسم ہو جاتا۔ بس ایک ثانیہ کا عمل تھا۔ آریا پار، مگر اسی ساعت نے فیصلہ دیا تھا۔ بدلہ لینے کی قدرت رکھتے ہوئے معافی دینا افضل ہے۔ بھلا دیتا ہی کیا ہے۔ یہ بدلہ انسان کو۔ اک دلی تسکین اور کمینی سی خوشی ۔ یہ خوشی کسی کی زندگی سے بڑھ کر تو نہیں۔ بے شک سزا و جزا کا مختار پرودگار ہے۔ جس عیب پر وہ پردہ ڈال رہا ہے۔ اسے افشا کرنا۔ کہاں کا انصاف ہے۔کوثر بے ساختہ نفی میں گردن ہلا کر اندر کی طرف مڑ گئی تھی۔ ایک یقین تھا۔ اس کی یہ نیکی کسی اچھے صلہ کی صورت میں ضرور لوٹائی جائے گی۔
Dear viewers, if you’re searching for 12 Rabi ul Awal poetry in Urdu, you’ve arrived at the perfect place! Our expert has carefully curated a beautiful collection of poetry for Eid Milad-un-Nabi, praising the Holy Prophet (PBUH). Reading this collection will not only uplift your spirit but also refresh your faith. It’s a valuable resource, and our expert has ensured its quality by reviewing it five times before presenting it to you.
ہر طرف ہے روشن، محفلِ میلاد النبی،
جشن ہے برپا، آمنہ کے لال کے آنے کا۔
زمین و آسمان پہ ہے نور کا سماں،
آیا ہے ربیع الاول، رحمت کا ہے سلسلہ۔
میلاد النبی کا جشن ہے، ہر دل ہے روشن،
برکت ہے اس مہینے کی، ہر راہ ہے روشن۔
جو آقا کا ہے واسطی، وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا،
بارہ ربیع الاول کا ہے پیغام، دلوں میں پیار سجا۔
مبارک ہو تمہیں، آیا ہے ربیع الاول کا چاند،
جس دن سے ہوئی ہے روشن، دنیا میں اللہ کی شان۔
ملا ہے ہمیں ربیع الاول کا پیارا تحفہ،
جس سے روشن ہے دل، اور سرشار ہے روح۔
ربیع الاول کا مہینہ ہے رحمت کا پیغام،
آؤ منائیں مل کر، سرکار کا جشن بہاراں۔
12 Rabi ul Awal is one of the most significant dates in the Islamic calendar, as it marks the birth of the final Prophet of Islam, Muhammad (PBUH). This day is celebrated by Muslims around the world with reverence and joy. Known as Mawlid al-Nabi or Eid Milad un-Nabi, it’s a time to reflect on the life and teachings of the Prophet, who played an integral role in shaping Islamic civilization and spreading the message of peace, compassion, and justice.
The 12th of Rabi ul Awal is not only about the birth of the Prophet but also holds deep spiritual significance for Muslims. The legacy of Prophet Muhammad (PBUH) continues to inspire millions across the globe, and this day serves as an opportunity to revisit his teachings and values. But what exactly happened on this day, and why is it so important? Let’s explore the history and events that make this day so special.
Birth of the Prophet Muhammad (PBUH)
The most significant event that took place on 12 Rabi ul Awal was the birth of the Prophet Muhammad (PBUH) in the year 570 CE in the city of Mecca, located in present-day Saudi Arabia. His birth marked the beginning of a new era for humanity, as he was sent by Allah to guide mankind to the right path. His life was a beacon of moral virtues, and his mission was to deliver the message of Islam, which emphasizes monotheism, justice, mercy, and compassion.
Prophet Muhammad’s (PBUH) early life was marked by challenges, as he was orphaned at a young age. However, he grew up to become a man of remarkable character, known for his honesty and integrity. He received his first revelation from Allah at the age of 40, and from that moment, his life changed forever as he began to preach the message of Islam.
Significance of 12 Rabi ul Awal in Islamic Tradition
For Muslims, the significance of 12 Rabi ul Awal extends beyond the mere celebration of the Prophet’s birth. It is a day to commemorate his life, character, and teachings. The Prophet Muhammad (PBUH) is regarded as a mercy to all of mankind, and this day allows Muslims to reflect on his contributions to the world.
One of the most important aspects of this day is that it brings people together in unity. In many Muslim-majority countries, 12 Rabi ul Awal is a public holiday, and people gather in mosques and community centers to recite naats (poetic praises of the Prophet), offer prayers, and listen to sermons about the life of the Prophet. Some communities also organize processions, where people march in the streets, singing songs of praise for the Prophet (PBUH).
Additionally, this day encourages Muslims to engage in acts of charity, kindness, and helping those in need, as these were among the core values that the Prophet Muhammad (PBUH) emphasized during his lifetime.
Different Perspectives on Celebrating 12 Rabi ul Awal
While many Muslims celebrate 12 Rabi ul Awal with great joy and enthusiasm, there are differing views within the Islamic world regarding the celebration of this day. Some Islamic scholars argue that while it’s important to remember the Prophet Muhammad’s (PBUH) life, there is no religious obligation to celebrate his birthday. They believe that following the Prophet’s teachings and practicing his Sunnah (traditions) on a daily basis is more important than celebrating a single day.
On the other hand, for those who do celebrate, the day provides an opportunity to renew their commitment to the teachings of the Prophet and to spread his message of peace and kindness.
The Passing of the Prophet Muhammad (PBUH)
Interestingly, there is also a historical debate about whether the Prophet Muhammad (PBUH) passed away on the same day he was born, i.e., 12 Rabi ul Awal. While some Islamic historians suggest that the Prophet left this world on this very day in the year 632 CE, others believe that the exact date of his passing is unclear. This dual association with both birth and death adds another layer of depth to the significance of 12 Rabi ul Awal for Muslims.
The Prophet’s passing marked the end of prophethood in Islam, but his message continues to live on in the hearts of Muslims worldwide. To this day, his teachings guide the way people live their lives, treat others, and worship Allah.
Mawlid al-Nabi Celebrations Around the World
In various parts of the world, 12 Rabi ul Awal is celebrated with different customs and traditions. In countries like Pakistan, Egypt, Turkey, and Indonesia, the day is marked by colorful festivities, public processions, and the distribution of food and sweets. Mosques and homes are illuminated, and people gather for special prayers and speeches that focus on the life and virtues of the Prophet Muhammad (PBUH).
In South Asia, for example, large crowds gather to attend Mehfil-e-Milad programs, where scholars and poets share insights into the life of the Prophet and recite poetry in his praise. Special meals are often prepared and shared with neighbors and the less fortunate, symbolizing the spirit of charity that the Prophet embodied.
The Message of 12 Rabi ul Awal: A Call to Follow the Sunnah
While the celebration of 12 Rabi ul Awal brings joy to Muslims, its deeper message is a call to action. The day reminds Muslims to follow the Sunnah of the Prophet Muhammad (PBUH) in their daily lives. The Prophet’s life was one of simplicity, humility, and service to others. He taught that success lies not in wealth or power but in piety, good character, and helping those in need.
By reflecting on the Prophet’s life and teachings on 12 Rabi ul Awal, Muslims can strengthen their faith and strive to live in a way that pleases Allah. Whether through acts of kindness, offering prayers, or supporting the less fortunate, this day serves as a reminder of the timeless values that the Prophet Muhammad (PBUH) upheld.
Conclusion
12 Rabi ul Awal is not just a date on the Islamic calendar—it’s a day filled with profound meaning and significance for Muslims around the world. It commemorates the birth of the Prophet Muhammad (PBUH), whose life and teachings continue to inspire billions. Whether one celebrates it with processions, prayers, or quiet reflection, the day serves as a powerful reminder of the values of peace, justice, and compassion that the Prophet preached.
By observing 12 Rabi ul Awal, Muslims renew their connection to their faith and their dedication to living a life modeled after the Prophet’s example.